برما کی ریاست رخائن میں گذشتہ ہفتے بودھوں کے حملوں میں 30 سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا۔
دو بین الاقوامی امدادی افسران جنھیں اس علاقے میں رسائی دی گئی کہتے ہیں کہ انھیں علاقے میں وسیع پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کے ثبوت ملے ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپ ’فور ٹی فائی رائٹس‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے کے دوران سلسلے وار حملے کیے گئے۔
دوسری جانب حکومت اور مقامی حکام نے قتل و غارت کے دعووں کو مسترد کر دیا ہے۔
تازہ ترین واقعہ گذشتہ ماہ برما کی ریاست رخائن کی ایک بستی میں پولیس اور روہنگیا مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات کے بعد سامنے آیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب یہ خبر پھیلی کہ متعدد روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش کی سرحد پر فرار ہونے کی کوشش کے دوران ہلاک کیا گیا۔
صورتِ حال اس وقت مزید بگڑ گئی جب ایک مقامی پولیس اہلکار کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ لاپتہ ہو گیا اور
یہ سمجھا گیا کہ اسے ہلاک کیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مقامی بودھوں نے سیکورٹی فورسز کی مدد سے ایک گاؤں میں بدلے کی کاروائی میں حصہ لیا۔
برما کے نامہ نگار جونا فشر کا کہنا ہے کہ ایک محتاط اندازکے مطابق مرنے والے افراد کی تعداد 30 ہے۔
کچھ اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں 70 افراد ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی فلاحی کاموں کی سربراہ ویلری آموس نے برما کی حکومت سے استدعا کی ہے کہ وہ امدادی کارکنوں کو متاثرہ علاقے میں جانے کی اجازت دے تاکہ فوری طور پر اس واقعے کی تحقیق شروع کی جا سکے۔
برما کی ریاست رخائن میں جون سنہ 2012 میں بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں میں200 افراد ہلاک جبکہ ہزاروں افراد بےگھر ہو گئے تھے۔
برما میں رہنے والے روہنگیا مسلمانوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے اور اقوامِ متحدہ کے مطابق روہنگیا دنیا کی سب سے زیادہ ستائی جانے والی قوموں میں سے ایک ہیں۔